یہ تاکیدِ مَحبّت ہے
یا تجدیدِ مَحبّت ہے
مگر جو کچھ بھی ہے جاناں
یہ توحیدِ مَحبّت ہے
سو توحیدِ مَحبّت میں بچھڑنے کا کبھی دھڑکا نہیں ہوتا
بجز چاہت کسی دل میں کوئی جذبہ نہیں ہوتا
کبھی تاکید یا تجدید کی نوبت نہیں آتی
کوئی کاغذ، کوئی خط، پھول یا تحفہ نہیں ہوتا
مری آنکھوں میں جتنے رنگ ہیں اُن سب میں چاہت ہے
مرے ہونٹوں پہ جتنے لفظ ہیں اُن میں عقیدت ہے
تمھیں معلوم ہے کہ چاہت تو اِک ایسی حقیقت ہے
جسے لفظوں، خطوں، پھولوں یا تحفوں کی
ضرورت ہی نہیں ہوتی
جہاں سے نکل کر بات خود دل تک پہنچتی ہے
جہاں آنکھوں سے نکلے اشک خود اظہار کرتے ہیں
کہ ہم کس حال میں ہیں
اور کتنا پیار کرتے ہیں
سو اے جانِ غزل دیکھو
مری آنکھیں، دھڑکتا دل اور ان میں موجزن جذبے
مری چاہت کا تحفہ ہیں
مری چاہت کے سب تحفے تمھارے پاس ہیں جاناں
مجھے یومِ مَحبّت پر تمھیں کچھ بھی نہیں دینا ۔
No comments:
Post a Comment